127

کبھی بھی ہار نہ مانو کی ایک اعلی مثال “کیرولی ٹاکاکس”۔

یہ کہانی ہے سن 1938ء کی۔ کیرولی نام کے ایک آدمی کی جو ہنگیرین آرمی کا حصہ ہوتا ہے۔ جو کہ فوجی ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے ملک کے سب سے ماہر شوٹر بھی تھے۔ اس ملک میں جتنی بھی قومی سطح پر مقابلے ہوئے تھے ان کو وہ اپنے نام کر چکا تھا۔ ان کی اس بہترین کارکردگی کو دیکھ کر لوگوں کو یقین تھا کہ 1940ء میں جو اولیمپکس گیم ہونے جارہے ہیں اس میں گولڈ میڈل کیرولی کو ہی ملے گا۔ اور وہ ان گیمز کے لیے سالوں سے تیاری کررہے تھے۔ ان کا ایک ہی خواب تھا کہ مجھے اپنے ہاتھ کو دنیا کا سب سے بہترین شوٹنگ ہینڈ بنانا ہے۔

کیرولی اس مقصد میں کامیاب ہو بھی گئے اپنے ہاتھ کو ایک بہترین شوٹنگ ہینڈ بنانے میں لیکن اولیمپکس سے دو سال قبل 1938 میں چونکہ وہ آرمی کا حصہ تھے تو ان دنوں آرمی کا ٹریننگ کیمپ چل رہا تھا۔ وہ بھی اس آرمی ٹریننگ کیمپ میں شامل تھے جہاں کیرولی کے ساتھ ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا۔ جس میں کیرولی کے اسی ہاتھ میں جس سے اس نے گولڈ میڈل جیتنا تھا ہینڈ گرینیڈ پھٹ گیا۔ اس واقع میں انہوں نے اپنا ہاتھ کھو دیا اور کیرولی کے خواب اور سب کچھ جو اس نے سوچ رکھا تھا ایک پل میں ختم ہوگیا۔

اب کیرولی کی پاس دو راستے تھے۔ پہلا کے اب وہ باقی کی ساری زندگی روتا رہے اور کہیں جا کر کے چھپ جائے۔ یا دوسرا رستہ یہ تھا کہ جو کیرولی کا مقصد تھا اس کو پکڑ کر رکھے۔ اس طرح کیرولی نے اپنی دوسرے ہاتھ پر دھیان دینا شروع کیا۔ کیونکہ جو چیز چلی جائے انسان کو اس کے بارے میں سوچ کر ہار نہیں مان لینی چاہئیے بلکہ جو اس کے پاس رہ گئی ہے اس کو استعمال کرتے ہوئے اپنے مقاصد کے حصول کی کوشش کرنی چاہئیے۔

 یوں کیرولی نے ہار نہیں مانی اور اپنے بائیں ہاتھ جس سے وہ لکھ تک نہیں سکتا تھا دوبارہ ٹریننگ شروع کردی۔ ٹریننگ کے ایک سال بعد یعنی 1939 میں انہوں نے دوبارہ شوٹنگ کی دنیا میں قدم رکھا۔ ان دنوں ہنگری میں قومی سطح پر شوٹنگ کے مقابلے ہو رہے تھے اور وہاں اور بھی بہت سے ماہر شوٹرز موجود تھے۔ انہوں نے جاکر کیرولی کو شوٹنگ کی دنیا میں واپسی کرنے کی مبارک باد دی اور ان کے جذبے کو سراہا۔ ان شوٹرز نے کی ریلی سے کہا کہ یہ ہوتا ہے جذبہ وہ کہ اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود بھی تم ہمیں دیکھنے اور ہماری حوصلہ افزائی کرنے کے لیے آئے ہو۔ کسی کو نہیں پتہ تھا کہ وہ ایک سال سے اپنے بائیں ہاتھ کے ساتھ شوٹنگ کی ٹریننگ کر رہے تھے۔ کیرولی کے جواب نے ان سب کو ہکا بکا کر دیا کیرولی نے کہا کہ ” میں یہاں آپ لوگوں کو داد دینے نہیں بلکہ آپ سے مقابلہ کرنے آیا ہوں۔ تیار ہوجاؤ “۔

شوٹنگ کا مقابلہ شروع ہوا باقی تمام شوٹرز اپنی طاقت یعنی کہ اپنے دائیں ہاتھ سے شوٹنگ کر رہے تھے جبکہ کیرولی اپنے بائیں ہاتھ سے شوٹنگ کر رہے تھے۔ اور جیتا کون؟ ایک ہاتھ کے ساتھ اترنے والا شخص کیرولی۔ لیکن کیرولی یہاں نہیں روکا۔ اس کا مقصد صاف تھا کہ مجھے اس ہاتھ کو اپنے ملک کا نہیں بلکہ پوری دنیا کا بیسٹ شوٹنگ ہینڈ بنانا ہے۔ کیرولی نے اپنا سارا دھیان 1940 میں ہونے والے اولیمپکس گیمز پر دیا۔ لیکن بدقسمتی سے دوسری جنگ عظیم کی وجہ سے اولیمپکس منسوخ ہوگئے۔ یہ بات کیرولی کے لیے کسی صدمے سے کم نہ تھی۔ مگر اتنی مشکلات اور تکالیف جس انسان کو نہ روک سکی وہ یہاں کیسے ہار مان جاتا۔

کیرولی نے 1944 کے اولمپکس گیمز کی تیاری شروع کر دی۔ لیکن جنگ عظیم کیوجہ سے 1944 میں ہونے والے اولیمپکس بھی کینسل ہوگئے۔ کیرولی نے 1948 کے اولیمپکس کی تیاری شروع کر دی۔ 1938 میں کیرولی کی عمر 28 سال جبکہ 1948 میں وہ 38 سال کے ہوگئے تھے۔ ان کی عمر کا ذکر اس لیے کیا کہ نئے اور جوان کھلاڑیوں کا مقابلہ کرنا مشکل ہوتا چلا جاتا ہے۔ لیکن مشکل نام کا لفظ شاید کیرولی کی ڈکیشنری میں تھا ہی نہیں۔

 کیرولی نے 1948 کے اولیمپکس میں شرکت کی اور دنیا بھر سے آئے ماہر کھلاڑی جو اپنے بیسٹ شوٹنگ ہینڈ سے شوٹنگ کررہے تھے۔ لیکن جیتا کون؟ چٹان کی طرح پختہ جذبہ رکھنے والا کیرولی۔ ” مین ویدھ دی اونلی ہیںنڈ “۔ لیکن وہ اس جیت کے بعد بھی نہیں روکا اور 1952 کے اولیمپکس میں دوبارہ حصہ لیا۔ ان گیمز میں بھی فتح کا تاج کیرولی کے سر گیا اور کیرولی نے ایک بار پھر گولڈ میڈل جیتا۔ ان کے اس غیر متزلزل جذبے اور محنت نے اولیمپکس گیمز کی تاریخ ہی بدل ڈالی۔ کیرولی سے پہلے ان شوٹنگ کے مقابلوں میں کسی نے لگاتار گولڈ میڈل نہیں جیتے اور یہ ریکارڈ اب تک کیرولی کے پاس ہی ہے۔

اس دلچسپ اور حقیقی کہانی سے جو ہمیں سبق ملتا ہے کہ آپ کسی بھی لوزر کے پاس چلے جاو اس کے پاس ایک پوری لیسٹ ہوگی، بہانوں کی کہ اس وجہ سے میں کامیاب نہ ہوسکا اپنی زندگی میں اور اس وجہ سے میں یہ کام نہ کر سکا۔ اور دوسری طرف وینر کے پاس چلے جاؤ اس کے پاس ہزاروں وجہ ہونگی وہ نہ کرنے کی جو وہ کرنا چاہتا ہے۔ صرف ایک وجہ ہوگی وہ کرنے کی جو وہ کرنا چاہتا ہے اور وہ کر بھی جائے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں