276

فراز احمد فراز کی زندگی

شاعری کی دنیا میں ایک نمایاں مقام رکھنے والے شاعر احمد فراز کسی تعارف کے محتاج نہیں۔۔ انھوں نے شاعری کی دنیا میں داخل ہوکر اپنے پرلطف شاعری کی دھوم مچادی اس لیے وہ آج بھی لوگوں کے دلوں میںم موجود ہیں۔

احمد فراز، 14 جنوری، 1931ء کو کوہاٹ کے علاقے میں پیدا ہوئے۔ اگر ان کے اصل نام کو دیکھا جائے تو ان کا اصل نام سید احمد شاہ تھا۔ جب انہوں نے شعر و شاعری میں قدم رکھا تو اپنے نام کے ساتھ فراز کا تخلص لگانا شروع کر دیا۔ جس کے بعد وہ احمد فراز کے نام سے مقبول ہو گئے۔

تعلیمی سرگرمیوں کا آغاز اپنے آبائی شہر کوہاٹ سے ہی کردیا لیکن بعد میں کچھ اہم مسائل کی بنا پر کوہاٹ سے پشاور منتقل ہوگئے۔ ایڈورڈ کالج پشاور سے تعلیم کے دوران ریڈیو پاکستان کے لیے لکھنا شروع کیے اور بطور رائٹر منتخب ہوئے۔ جب ان کا پہلا شعری مجموعہ “تنہا تنہا “شائع ہوا تو وہ بی-اے کی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ فراز صاحب نے اردو اور فارسی میں ایم-اے کیا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد ریڈیو پاکستان سے علیحدہ ہوگئے اور یونیورسٹی میں بطور لیکچرار پڑھانا شروع کردیا۔

یونیورسٹی میں لیکچرار شپ کے دوران مجموعہ “درد آشوب” چھپا جس کے بنا پر انھیں پاکستان رائٹر گڈز کی جانب سے آدم جی ایوارڈ عطا کیا گیا۔ یونیورسٹی کی ملازمت کے بعد پاکستان نیشنل سینٹر پشاور کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ اباسین ایوارڈ، ٹاٹا ایوارڈ، اکادمی ادبی ایوارڈ کینڈا، سن 1988ء میں فراق گورکھ پور ایوارڈ سے نوازا گیا کیونکہ ان کی شاعری کے چرچے پوری دنیا میں ہو رہے تھے اور انہوں نے بے شمار قومی ایوارڈ حاصل کیے۔ ان میں سب سے اہم ایوارڈ ہلال امتیاز 2004ء میں حاصل کیا۔ جو انہوں نے حکومتی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے واپس کردیا۔ “جنرل ضیاء کے دور میں مجبورا جلاوطنی اختیار کرنی پڑی”۔

احمد فراز صاحب کی عملی زندگی بہت پرلطف تھی۔ ان کی زندگی میں بہت سادگی تھی۔ ان کی ایک خاص عادت وہ روٹھتے اور خفا بہت جلد ہوجاتے تھےاور پھر منانے کے لیے انتطار کیا کرتے تھے۔ یہ عادت ان کے بچپن کی تھی منانے والوں کی زیادتی کی وجہ سے ان کی یہ عادت پختہ ہوگئی۔

فراز صاحب پاکستان میں جتنے مشہور و معروف تھے، اتنے ہی ہندوستان میں بھی مقبول تھے۔ وہ بھارت کو اپنا دوسرا گھر بھی کہتے تھے۔ ہندوستان میں کسی بھی بڑے مشاعرے میں ان کی شرکت ضروی سمجھی جاتی تھی۔

اپنے ایک انٹرویو میں فراز صاحب نے کہا تھا۔ دکھی لوگوں نے مجھے بہت پیار دیا ہےاور اسی ضمن میں ان کا ایک مشہور شعر ہے۔


اب اور کتنی محبتیں تم کو چاہیئے فراز
ماوں نے ترے نام پہ بچوں کے نام رکھ لیے


احمد فراز کی شاعری میں رومانی کی انتہا دیکھائی دیتی ہے۔ اسی لیے محبت کے پجاری احمد فراز کی شاعری کے دیوانے ہیں۔ ان کی رومانی شاعری میں وہ تمام جذبے، کیفیات، حالات و واقعات اور وسوسے موجود ہیں۔ جو محبت کے سفر میں لازم طور پر آتے جاتے رہتے ہیں۔ اس لیے محبت کے پجاری اپنے پیار و محبت کے اظہار کے لیے احمد فراز صاحب کی شاعری کو اپنی زندگی کا ایک حصہ سمجھتے ہیں۔ فراز صاحب نے بہت سے ممالک کے دورے بھی کیے۔

ان کا کلام علی گڑھ یونیورسٹی کے نصاب میں شامل ہے۔ جامعہ ملیہ بھارت میں ان پر پی-ایچ-ڈی کا مکالمہ لکھا گیا۔ جس کا موضوع فراز کی غزل ہے۔ ان کی شاعری کا مختلف زبانوں میں ترجمہ کیاگیا ہے۔ جس میں انگریزی، فرانسیسی، روسی، پنجابی اور جرمن زبان شامل ہیں۔
احمد فراز صاحب کا مجموعہ کلام
تنہا تنہا، درد آشوب، نایافت، میرے خواب ریزہ ریزہ، بے آواز گلی کوچوں میں، نابینا شہر میں آئینہ، پس انداز موسم، سب آوازیں میری ہیں، خواب گل پریشاں ہے، بودلک، غزل بہانہ کروں، جاناں جاناں، اے عشق جنوں پیشہ، شہر سخن آراستہ ہے۔

فراز صاحب کو فوج میں ملازمت کا بہت سوق تھا لیکن ان کی خواہش پوری نہ ہوسکی۔ ذولفقار علی بھٹو کے دور میں “اکادمی ادبیات” کے پہلے ڈائریکٹر بن گئے۔ جنرل ضیاءالحق مارشل لاء کے دور کے خلاف کافی نظمیں لکھیں، جن کو بہت شہرت ملی۔ مشاعروں میں مارشل لاء کے خلاف کلام پڑھنے پر فراز صاحب کو حراست میں لے لیاگیا تھا۔ جس کے بعد ان کو خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرنا پڑی۔ مشرف دور میں احمد فراز صاحب کو ہلال امتیاز سے نوازا  گیا۔ ان کا کلام معروف گلوکاروں نے بھی گایا۔ جن میں مشہور زمانہ غزل مہدی حسن صاحب نے گائی۔


اب کے ہم بچھڑے شاید کبھی خوابوں میں ملیں
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں 
ڈھونڈ اجڑے ہوئے لوگوں میں وفا کے موتی
یہ خزانے تجھے ممکن ہے خرابوں میں ملیں
غم دنیا بھی غم یار میں شامل کر لو
نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں
تو خدا ہے نہ میرا عشق فرشتوں جیسا
دونوں انساں ہیں تو کیوں اتنے حجابوں میں ملیں
آج ہم دار پہ کھینچے گئے جن باتوں پر
کیا عجب کل وہ زمانے کو نصابوں میں ملیں
اب نہ وہ میں ہوں، نہ تو ہے، نہ وہ ماضی ہے فراز
جیسے دو سائے تمنا کے سرابوں میں ملیں۔


احمد فراز 25 اگست، 2008ء کو ہمیشہ کے لیے ہم سے بچھڑ گئے اور اپنی یادیں ہم میں چھوڑ گئے۔ اسلام آباد میں ان کو دفن کیا گیا لیکن بطور شاعر آج بھی وہ لوگوں کے دلوں میں میں زندہ ہیں اور ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ فراز صاحب کی موت بلاشبہ اردو کے ایک عظیم دور کا خاتمہ ہے، ایک ترقی پسند شاعر دنیا سے چلا گیا۔

میں کہ صحرائے محبت کا مسافر تھا فراز
ایک ہوا کا جھونکا تھاکہ خوشبو کے سفر پر نکلا

اپنا تبصرہ بھیجیں