امیروں کا مال لوٹنا اور غریبوں میں تقسیم کرنے کا ذکر ہو تو چودھویں صدی کا ایک کردار “روبن ہوڈ” یاد آتا ہے۔ جو اپنے ساتھیوں سمیت برطانوی کاؤنٹی ناٹنگھم شائیر میں شیرووڈ کے جنگلات میں رہتا تھا۔ اس کے بارے میں کئی ناول لکھے گئے اور بہت سی فلمیں بھی بنیں۔ مگر پھر بھی اس کے بارے میں یہ بحث موجود ہے کہ وہ حقیقی زندگی میں وجود رکھتا بھی تھا یا نہیں۔ تاہم ایسا ہی ایک کردار ہندوستان میں بھی گزرا ہے جو کہ روایت کے مطابق امیروں کو لوٹتا تھا اور غریبوں کی مدد کرتا تھا۔
یہ کردار تھا “سلطانہ ڈاکو” جسے 96 سال پہلے 7 جولائی، سن 1924ء کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا تھا۔ سلطانہ ڈاکو کی عقیدے کے متعلق کچھ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا۔ بیشتر لوگوں کے نزدیک وہ مسلمان تھا لیکن چند مورخین نے اسے ہندو عقیدے کا پیروکار بتایا ہے کیونکہ وہ “بہاتو قوم” سے تعلق رکھتا تھا جو عقیدے کے لحاظ سے ہندو تھی۔
سلطانہ اور اس کے گروہ کے لوگ ضلع مرادآباد کے رہنے والے تھے اور سب کے سب جرائم پیشہ تھے۔ سلطانہ اور اس کے گروہ کے افراد مختلف جرائم میں سزا کے طور پر اترپردیش کے علاقے نجیب آباد میں پتھر گڑھ کے قلعے میں قید کئے گئے تھے۔ مگر آہستہ آہستہ یہ افراد قید سے فرار ہونے لگے اور انہوں نے بہاتو قوم ہی کے ایک شخص “بالم کند” کی قیادت میں چوری چکاری کی وارداتیں شروع کردی۔ بالم کند ایک دن اپنے علاقے میں معلوف خان نامی ایک بہادر پٹھان سے الجھ بیٹھا اور اس کی گولی کا نشانہ بن گیا۔ جس کے بعد اس گروہ کی قیادت سلطانہ کے ہاتھ میں آگئی۔
سلطانہ ابتداء میں چھوٹی موٹی چوری چکاری کرتا تھا۔ اردو کے پہلے جاسوسی ناول نگار اور اپنے زمانے کے مشہور پولیس افسر “ظفر عمر” اسے ایک مرتبہ گرفتار کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ جس پر انہیں پانچ ہزار روپے کا انعام ملا تھا۔ ظفر عمر کی صاحبزادی “حمیدہ اختر حسین رائے پوری” نے اپنی کتاب “نایاب ہیں ہم” میں لکھا ہے کہ ظفر عمر نے سلطانہ کو ایک دو بدو مقابلے میں گرفتار کیا تھا۔ اس وقت سلطانہ پر سوائے چوری چکاری کے قتل کا کوئی الزام نہ تھا۔ اس لئے اسے صرف چار سال قید با مشقت سزا سنائی گئی۔ ظفر عمر نے ملنے والی انعامی رقم اپنے سپاہیوں اور اپنے علاقے کے لوگوں میں تقسیم کردی تھی۔
رہائی کے بعد سلطانہ نے اپنے گروہ کو ازسرنو منظم کیا۔ اس نے نجیب آباد اور سمن پور کے سرکردہ لوگوں سے رابطہ استوار کیے اور اپنے قابل اعتماد مخبروں کا جال بچھا کر ڈاکے مارنا شروع کر دیے۔ اسے اپنے مخبروں کے ذریعے مالدار آسامیوں کی خبر ملتی رہتی تھی۔ سلطانہ ہر ڈاکے کی منصوبہ بندی بڑی احتیاط کے ساتھ کرتا اور ہمیشہ کامیاب لوٹتا۔ ظفر عمر کے مطابق سلطانہ ڈاکو بڑے نڈر طریقے ڈاکہ ڈالتا تھا اور ہمیشہ پہلے سے لوگوں کو مطلع کر دیتا تھا کہ مابدولت تشریف لانے والے ہیں۔
ڈاکے کے دوران وہ خون بہانے سے ممکنہ حد تک گریز کرتا لیکن اگر کوئی شکار مزاحمت کرتا اور اسے یا اس کے ساتھیوں کی جان لینے کی کوشش کرتا تو وہ ان کو قتل کرنے سے بھی دریغ نہ کرتا۔ یہ بھی مشہور ہے کہ وہ اپنے مقتولین یا مخالیفین کے ہاتھ کی تین انگلیاں بھی کاٹ ڈالتا۔ امیر ساہوکاروں اور زمینداروں کے ستائے ہوئے غریب عوام اس کی درازی عمر کی دعائیں مانگتے اور وہ بھی جس علاقے سے مال لوٹتا، وہیں کے ضرورت مندوں میں تقسیم کروا دیتا تھا۔
سلطانہ کی ڈکیتیوں اور داد و دہش کا یہ سلسلہ کئی سال تک جاری رہا۔ مگر چونکہ انگریزوں کی حکومت تھی اور وہ یہ صورتحال زیادہ دیر تک برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ پہلے تو انہوں نے ہندوستانی پولیس کے ذریعے سلطانہ کو ٹھکانے لگانے کی کوشش کی مگر سلطانہ کے مخبروں اور غریب دیہاتیوں کی مدد کے باعث وہ اپنے ارادوں میں کامیاب نہ ہوسکے۔ بلآخر انگریزوں نے سلطانہ ڈاکو کی گرفتاری کے لیے برطانیہ سے “فریڈی ینگ” نامی ایک تجربہ کار پولیس افسر کو انڈیا بلانے کا فیصلہ کیا۔
فریڈی ینگ نے ہندوستان پہنچ کر سلطانہ کی تمام وارداتوں کا تفصیلی مطالعہ کیا اور ان واقعات کی تفصیل معلوم کی جب سلطان اور اس کے گروہ کے افراد پولیس کے ہاتھوں گرفتاری سے صاف بچ نکلے تھے۔ فریڈی ینگ کو یہ نتیجہ نکالنے میں زیادہ دیر نہ لگی کہ سلطانہ کی کامیابی کا راز اس کے مخبروں کا جال ہے جو محکمہ پولیس تک پھیلا ہوا ہے۔ وہ یہ بھی جان گیا کہ منوہر لال نامی ایک پولیس افسر سلطانہ کا خاص آدمی ہے سلطانہ کی گرفتاری کی ہر کوشش کی خبر اس تک پہنچا دیتا ہے اور اس سے قبل کے پولیس سلطانہ کے ٹھکانے تک پہنچتے وہ اپنے بچاؤ کی تدبیر کر لیتا ہے۔
فریڈی ینگ نے سلطانہ کو گرفتار کرنے کے لئے بڑی ذہانت سے منصوبہ سازی کی۔ سب سے پہلے تو اس نے منوہر لال کا تبادلہ ایک دور دراز کے علاقے میں کر دیا۔ پھر نجیب آباد کے عمائدین کی مدد سے سلطانہ کے قابل اعتماد شخص منشی عبدالرزاق کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہوگیا۔ سلطانہ منشی عبد الرزاق پر حد سے زیادہ بھروسہ کرتا تھا۔ سلطانہ کی جائے پناہ نجیب آباد کے نواح میں واقع جنگل تھا جسے “کھجلی بند” کہا جاتا تھا۔ یہ جنگل انتہائی گنا اور درندوں سے بھرا ہوا تھا۔ مگر سلطانہ اس جنگل کے چپے چپے سے واقف تھا۔ اس کی کمین گاہ جنگل کے ایسے علاقے میں تھی جہاں دن کے اوقات میں بھی سورج کی روشنی نہیں پہنچتی تھی۔
سلطانہ بھیس بدلنے کا بھی ماہر تھا۔ فریڈی ینگ نے منشی عبد الرزاق کی اطلاعات کی بنیاد پر سلطانہ کے گرد گیرا تنگ کرنا شروع کردیا۔ منشی عبد الرزاق ایک جانب سلطانہ سے رابطے میں رہتا تھا اور دوسری طرف اس کی نقل و حرکت کی اطلاع فریڈی ینگ تک پہنچا رہا تھا۔ ایک دن منشی نے سلطانہ کو ایک ایسے مقام پر بلایا جہاں پولیس پہلے سے ہی چھپی ہوئی تھی۔ سلطانہ جونہی منشی کے بچائے ہوئے جال تک پہنچا تو ایک انگریز افسر نے اسے اپنے ساتھیوں کی مدد سے قابو کر لیا۔ سلطانہ نے پہلے فائر کرنا چاہا مگر پولیس اس کی رائفل چھیننے میں کامیاب ہوگئی اور سلطانہ گرفتار ہوگیا۔
فریڈی ینگ سلطانہ کو گرفتار کرکے آگرہ جیل لے آئے۔ جہاں اس پر مقدمہ چلا اور سلطانہ سمیت 13 افراد کو سزائے موت کا حکم سنا دیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی سلطانہ کے بہت سے ساتھیوں کو عمر قید اور کالا پانی کی سزا بھی سنائی گئی۔ 7 جولائی، 1924ء کو سلطانہ کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔ مگر آمراء پر اس کی دہشت اور عوام میں اس کی داد و دہش کے چرچے ایک عرصہ تک جاری رہے۔
سلطانہ انگریزوں سے شدید نفرت کرتا تھا۔ کہتے ہیں کہ اسی نفرت کی وجہ سے وہ اپنے کتے کو رائے بہادر کہہ کر بلاتا تھا۔ یہ ایک اعزازی خطاب تھا جو انگریز سرکار کی جانب سے ان کے وفادار ہندوستانیوں کو دیا جاتا تھا۔ سلطانہ کے گھوڑے کا نام “چیتک” تھا۔ ایک مصنف نے لکھا ہے کہ جس زمانے میں سلطانہ پر مقدمہ چلایا جارہا تھا اس دوران اس کی دوستیفریڈی ینگ سے ہوگئی۔ ریڈینگ جو سلطانہ کی گرفتاری کا باعث بنا تھا۔ سلطانہ کے واقعات سے اتنا متاثر ہو گیا کہ اس نے سلطانہ کو معافی کی درخواست تیار کرنے میں مدد دی۔ مگر یہ درخواست مسترد ہو گئی۔ سلطانہ فریڈی ینگ سے درخواست کی کہ اس کے مرنے کے بعد اس کے سات سالہ بیٹے کو اعلی تعلیم دلوائی جائے۔ فریڈی ینگ نے سلطانہ کی خواہش کا احترام کیا اور سلطانہ کی سزائے موت کے بعد اس کے بیٹے کو اعلی تعلیم کے حصول کے لیے لندن بجھوا دیا اور بعد ازاں وہ ہندوستان واپس آیا اور آئی سی ایس کا امتحان پاس کرنے کے بعد محکمہ پولیس کا اعلیٰ افسر بنا۔ جہاں سے وہ انسپیکٹر جنرل کے عہدے سے سبکدوش ہوا۔
سلطانہ اپنی زندگی میں ہی ایک اساطیری کردار بن چکا تھا۔ عوام سے محبت کرتے اور اس کی کردار کی خوبیوں نے ادیبوں اور قلم سازوں کو اپنی جانب متوجہ کیا اور اس کے بارے میں ہالی ووڈ، بالی ووڈ اور لالی ووڈ تینوں مراکز میں فلمیں بنیں۔