217

پب جی گیم کیسے بنی

پب جی گیم کیسے بنی 

 

اگر آپ جاننا چاہتے ہیں کہ پب جی گیم کیا ہے؟  یہ کیوں مقبول ہوئی؟ اور کیا واقعی یہ ایک یہودی سازش ہے؟ یہ کب اور کیسے وجود میں آئی تو اس تحریر میں ہم آپ کو پب جی کے بارے میں بہت سے چھپے حقائق اور پب جی کی تخلیقی کہانی بتاتے ہیں۔ 

 

 

  

ویسے تو تقریبا ہر ماہ گیمینگ انڈسٹری اپنے صارفین کے لئے درجنوں ویڈیو گیمز ریلیز کرتی ہے لیکن آج سے تقریبا چار سال پہلے ریلیز کی جانے والی “پلیئر  اننان بیٹل گراؤنڈ” یعنی پب جی کو دنیا میں تیزی سے مقبول ہونے والی گیمز میں سے ایک ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ جون 2020ء کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت پب جی کی دنیا میں 80 کروڑ سے زائد ایکٹیو صارفین ہیں۔ جن میں سے اوسطاً  تین کروڑ افراد روزانہ کی بنیاد پر یہ گیم کھیل رہے ہیں۔

 

پب جی طور پر ایک شوٹنگ گیم ہے جس میں کھلاڑیوں کا مقصد ایک دوسرے کو موت کے گھاٹ اتار کر آخری دم تک زندہ رہنا ہوتا ہے اور اس گیم کو ایک دو یا پھر چار بندوں کی ٹیم کے طور پر کھیلا جاتا ہے گیم کی شروعات میں 100 کھلاڑی جہاز سے کود کر ایک بیاباں جزیرے پر اترتے ہیں زمین پر اترنے کے وقت کیونکہ ان کے پاس کسی قسم کا ہتھیار موجود نہیں ہوتا۔ اس لیے ان کی پہلی کوشش جزیرے پر موجود بوسیدہ عمارات اور کھنڈرات میں پڑے ہوئے ہتھیاروں کو استعمال میں لانا ہوتا ہے تاکہ وہ مخالف کھلاڑیوں کو موت کے گھاٹ اتار سکیں۔ ایک عام پب جی گیم کا دورانیہ تیس منٹ تک ہو سکتا ہے اور گیم میں دلچسپی برقرار رکھنے کی خاطر ہر چند منٹ بعد نقشے پر موجود کھیل کا ایریا سکڑتا چلا جاتا ہے۔ کھیل کے ایریا سے باہر رہنے والے کھلاڑی رفتہ رفتہ زخمی ہونے لگتا ہے اور اگر وہ بروقت کھیل کے لیے مختص کیے گئے محفوظ ایریا میں نہیں پہنچتا تو مرنے کی وجہ سے اسے گیم سے باہر نکال دیا جاتا ہے۔ کھیل کا ایریا سکڑنے کی وجہ سے کھلاڑیوں کے لیے بھی میدان جنگ تنگ ہونا شروع ہو جاتا ہے اور مجبور انہیں ایک دوسرے کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور آخر میں بچنے والے ہیں فاتح قرار پاتا ہے۔ 

 

 

یہ تو تھی اس گیم کے متعلق چند ایک بنیادی باتیں ، اب بات کرتے ہیں کہ اس گیم کو بنایا کس نے اور اسے بنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اس مشہور زمانہ گیم کو بنانے والا کوئی پروفیشنل گیم ڈویلپر یا پروگرامر نہیں تھا۔ بلکہ وہ فوٹوگرافی، ویب ڈیزائننگ اور گرافک ڈیزائننگ کے شعبے سے منسلک تھا۔ سن 2013ء میں طلاق کے بعد برینڈن گرین اپنا کام کاج چھوڑ کر برازیل سے واپس اپنے ملک آئرلینڈ آیا تو اس کی نظر سے کی پرانی فرست پرسن شوٹر گیمز گزری۔ جن میں 2002ء اور 2003ء میں ریلیز کی جانے والی امریکاز  آرمی اور ڈیلٹا فورس بلیک ہاک ڈاؤن گیمز سرفہرست تھیں۔

 

ایک مشکل رشتے سے نجات پانے کے بعد ٹائم پاس کے لئے اس نے متعدد فرسٹ پرسن شوٹر گیم کھیلی لیکن وہ جلد ہی ان سے بور ہو جایا کرتا تھا۔ برینڈ نے نوٹ کیا کہ زیادہ “ایف پی ایس” یعنی فرسٹ پرسن شوٹر گیم میں یکسانیت کا پہلو نمایاں تھا اور ان میں موجودہ پلے ایریا بھی بہت مختصر اور سادہ تھا ، جسے آسانی سے یاد رکھا جا سکتا تھا۔

 

برینڈن ایک ایسی گیم کا خواہشمند تھا جو کہ دوسری گیمز کی طرح آسان نہ ہو بلکہ ہر دفعہ کھیلنے پر اسے ایک نئے چیلنج کا سامنا کرنا پڑے۔ اسی دوران وہ ”ڈے زی” گیم سے متعرف ہوا جو کہ آرماء ٹو گیم کا ایک موڈ تھا۔ گیمرز  کی زبان میں موڈ ایک  ایسی گیم کو کہتے ہیں جو کہ اصل گیم میں تبدیلی کرکے تخلیق کی جاتی ہے ،  اگرچہ برینڈن کوئی پروفیشنل پروگرامر نہ تھا۔ لیکن “جاوا سکریپٹ” کی مدد سے اس نے ڈے ذی گیم میں مزید تبدیلیاں کرتے ہوئے گیمننگ کمیونٹی میں “ڈے ذی بیٹل رویال” نامی گیم ریلیز کی گئی تھی جسے بہت سراہا گیا۔ 

 

برینڈن نے یہ گیم سن 2000ء میں ریلیز ہونے والی ایک جاپانی فلم “بیٹل رویال” سے متاثر ہوکر تخلیق کی تھی۔ اس فلم میں جاپانی حکومت “بی آر ایکٹ” نامی ایک قانون پاس کرتی ہے۔ جس کے تحت ملک میں بگڑے ہوئے نوجوانوں سے چھٹکارا پانے کی خاطر ایک پروگرام شروع کیا جاتا ہے۔ 42 طلباء و طالبات سے بھری ہوئی ایک بس کو سرکاری سطح پر اغوا کرکے اسے بیان جزیرہ پر چھوڑ دیا جاتا ہے اور ہر سٹوڈنٹ کے گلے میں ایک پٹہ ڈال دیا جاتا ہے جو کہ انہیں اس بات پر مجبور کرتا ہے کہ وہ مقررہ وقت سے پہلے جزیرے کے محفوظ علاقے میں پہنچے ورنہ ان کی موت واقع ہوجائے گی۔ بی آر ایکٹ کے تحت ان میں سے صرف ایک کو بھی زندہ واپس جانے کی اجازت ہوگی اور ان کے پاس ایک دوسرے کو مارنے کے لیے زیادہ سے زیادہ تین دن ہیں۔ اگر انہوں نے ایک دوسرے کو نہ مارا تو تین دن بعد ان کے گلے میں پڑا کالر خود بخود سب کو مار دے گا۔ ڈے ذی بیٹل رویال گیم پر رضاکارانہ طور پر کام کرنے کے بعد اس نے کچھ عرصہ ڈیے بریو گیم کمپنی کے لیے بھی کام کیا۔ 

 

 

 

 

جس کے بعد 2016ء میں برینڈن کوریا آ گیا جہاں سے وہ “بلیو ہول کمپنی” کی جانب سے ڈی ذی بیٹل رویال طرز کی ایک خودمختار گیم بنانے کی آفر دی گئی اور یوں مشہور زمانہ پب جی گیم کی شروعات ہوئی۔ بلیو ہول گیم کمپنی نے برینڈن گرین جو کہ اپنے یوزر نیم پلیئر آن نان کے نام سے بھی پہچانا جاتا ہے کو گیم کا لیڈ ڈیزائنر اور ڈائریکٹر بناتے ہوئے اسے 35 ڈویلپر کی ایک ٹیم فراہم کی، جن کی تعداد 2017 میں بڑھ کر 70 گیم ڈویلپرز تک جا پہنچی تھی۔ 

 

 

 

 

تقریبا ایک سال تک تخلیق کے مراحل سے گزرنے کے بعد جب مارچ 2017ء میں اسے دنیا میں ریلیز کے لیے پیش کیا گیا تو پہلے تین دنوں میں ایک کروڑ ڈالر کا بزنس کرتے ہوئے اس نے دنیا میں تیزی سے مقبول ہونے والی گیم کا اعزاز اپنے نام کر لیا۔ اپنی ابتدائی تین ہفتے کے اندر اندر اس گیم کی پچاس لاکھ سے زائد کاپیز فرخت ہوئیں۔ جس کی مدد سے بلیو ہول کمپنی کو 10 کروڑ ڈالر کا منافع ہوا اور 2017ء کے اختتام تک ک یہ منافع 70 کروڑ ڈالر سے تجاوز کر چکا تھا۔ جون 2020 کے اعداد و شمار کے مطابق اس گیم کے تقریبا 80 کروڑ ایکٹیو یوزرز موجود ہیں۔ جن میں سے  تین کروڑ افراد روزانہ یہ گیم کھیلتے ہیں۔ 

اپنی بے پناہ مقبولیت کی وجہ سے جہاں دنیا بھر میں اسے پذیرائی ملی ہے وہیں پاکستان میں کئی حلقوں میں اس ایلومیناتی اور یہودی سازش سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ کسی بھی شہ کی زیادتی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے پھر چاہے وہ کھیل ہی کیوں نہ ہو۔ یقیناً دنیا کے بیشتر نوجوانوں کی طرھ پاکستان میں بھی نوجوانوں کی اکثریت پب جی کی لت کا شکار ہے جو کہ باعث تشویش ہے لیکن بغیر سوچے سمجھے اور تحقیق کئے بغیر اسے یہودی سازش کہنا درست نہیں۔

 

 

اپنا تبصرہ بھیجیں