135

پتھروں سے بنا شہر پیٹرا دنیا کے سات عجوبوں میں سے “چوتھا عجوبہ”۔

یہ کائنات نہ جانے کتنے سال پرانی ہے کوئی اس بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ مگر دور حاضر میں ہونے والی دریافتیں دراصل عہد رفتہ کی یاد اور پہچان دلاتی ہیں۔ اس ماڈرن دور میں بھی ایسے ایسے شہر دریافت ہو رہے ہیں کہ جن کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ انہیں ہزاروں سال پہلے افرادی قوت کے بل بوتے پر تعمیر کیا گیا تھا۔ جبکہ ان شہروں کا اسٹرکچر دیکھ کر عقل انسانی پر ایسے راز آشکار ہوتے ہیں۔ جن سے ہزاروں سال قبل کا فن تعمیر آج کی جدید ٹیکنالوجی کو بھی مات دیتا دکھائی دیتا ہے۔

ان دریافت ہونے والے شہروں میں سے ایک شہر “پیٹرا” بھی ہے جسے دنیا کے عجائبات میں سے ایک مانا جاتا ہے۔ یہ قدیم شہر ایک دور میں ہنستا اور مسکراتا شہر مانا جاتا تھا۔ مگر آج کے دور میں اسے ایک شہر خاموشاں کا درجہ دینا زیادہ بہتر ہوگا۔ جو کہ ڈھلتے وقت کی بے رحم لہروں میں آکر اپنی باقیات کو سمیٹنے کی کوشش کر رہا ہے۔

یہ شہر سعودی عرب جیسے بڑے ملک کے ساتھ واقع ملک اردن میں واقع ہے۔ اردن اسلامی تہذیب اور روایات کے مطابق لاکھوں سال پرانا ملک ہے۔ عرب کی حدود میں شامل اردن ایک مسلم روایات کی زندہ مثال بھی ہے۔ اس ملک میں موجود بے شمار شاہکار جو انسانی ہاتھ سے تخلیق کردہ ہیں انسانیت کی توجہ کا مرکز بنے ہوے ہیں۔ اس زمرے میں ایک شہر جیسے ” پیٹرا “ کا نام دیا گیا ہے دریافت ہوا ہے۔

سرخ چٹانوں اور بلند و بالا کوہساروں کو انتہائی مشاقی سے تراش کر بنایا جانے والا پیٹرا نامی شہر بلاشبہ قدیم دنیا کا نایاب خزانہ ہے۔ اس شہر قدیم کے مکین خود تو وقت کے بھگولوں کی لپیٹ میں آکر فنا ہوگئے۔ مگر ان ہاتھوں سے تراشے گئے شاہکار رہتی دنیا تک حیرت و تجسس کا منبع بن کر رہ گئے۔

اردن کا یہ ثقافتی شہر اپنے دور میں ہیرے سے مشابہ ہونے کا اعزاز بھی رکھتا ہے۔ چٹانوں سے بنے ستونوں اور محرابوں سے مزائین اس شہر میں کسی موسم میں بھی سیاحوں کا جم غفیر کم نہیں ہوتا۔ اگر پیٹرا کے تاریخی ادوار پر نگاہ دوڑائی جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کے یہ شہر نبطی قوم کا دارالحکومت تھا۔ اس شہر کو سن 1812 عیسوی میں دریافت کیا گیا تھا اور اس کی دریافت اپنے آپ میں ایک دلچسپ حقیقت ہے۔

 

 

کہا جاتا ہے کہ ایک سوئس باشندہ اسی شہر سے ملحقہ وادی کی سیر کو آیا۔ وادی کی سیر مکمل کرنے کے بعد وہ سنگلاخ پہاڑوں کی سمت اس غرض سے چل دیا کے ابلتے سورج کی تپش سے بچا جا سکے۔ چلتے چلتے وہ پیٹرا کے داخلی دروازے پر پہنچا جو کہ ایک اونچے پہاڑ کو کاٹ کر بنایا گیا تھا۔ اس پہاڑ کے سائے میں کچھ دیر آرام کرنے کے بعد جب اس نے اندرونی جانب دیکھا تو یہ راستہ بتدریج چوڑا ہوتا معلوم ہوا۔ اس سیاح نے پہاڑ کے اندرونی حصے کی طرف قدم بڑھائے اور پھر اس کی نظر شہر کی پہلے گلابی رنگت کی حامل عمارت پر پڑی۔ جو بڑی شان کے ساتھ ایک چٹان کے درمیان اپنے نقوش اور نگار واضح کر رہی تھی۔ اس کو دیکھ کر وہ سیاہ حیرت زدہ ہوتے ہوئے اس عمارت کے اندر داخل ہوا۔ کچھ دیر چلنے اور اردگرد کے ماحول کو پرکھنے کے بعد اسے احساس ہوا کہ اس نے ایک قدیم شہر کو کھوج نکالنے جیسا عظیم کارنامہ سر انجام دیا ہے۔ جو اس سے قبل دنیا کی نظروں سے اوجھل تھا۔

اس قدیم شہر کے خدوخال اپنے اندر دلکش نظارے سموئے ہوئے ہیں۔ شہر کا داخلی راستہ 15 فٹ چوڑا ہے۔ جو کہ بلند پہاڑی سلسلے میں موجود ہے اور اس کی لمبائی 1200 میٹر ہے۔ داخلی راستے کے بعد چٹانوں کو کھود کر بنائی جانے والی عمارات کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ جس سے یہ گمان کیا جا سکتا ہے کہ شاید نبطی قوم نے ایسے ہتھیار ایجاد کر لیے تھے۔ جو ان سنگلاخ چٹانوں کو آسانی سے چکنا چور کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ اس شہر کے اہم جگہ میں ایک اسٹیڈیم نما جگہ اس بات کی نشاندہی کررہی ہے کہ اس قدیم شہر میں کھیلوں کو کتنی اہمیت حاصل رہی ہے۔ اسٹیڈیم کے بلکل سامنے ایک عالی شان محل نما عمارت بھی وجود رکھتی ہے۔ تاریخ کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ پیٹرا شہر میں اردن اور اس ملحقہ علاقوں پر راج کرنے والا سب سے معروف بادشاہ الیگزینڈر سوئم رہا کرتا تھا۔

 

نبطی قوم کی ذہانت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے پیٹرا شہر کے سب سے اونچے پہاڑ پر ایک ڈیم تعمیر کیا۔ جس میں بارش کا پانی جمع کیا جاتا اور اس ڈیم سے بے شمار نالیاں تمام شہر کو پانی فراہم کرنی جیسی خدمات سرانجام دیتی۔ اس کے علاوہ ایک قربان گاہ اور حمام کے آثار بھی دریافت ہوئے ہیں۔

 

 

آرکیالوجسٹس کی ٹیم نے اس شہر کا بغور مشاہدہ کرنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اس شہر کی تراش خراش کے لیے اس دور کے ماہر کاریگروں کے فن کا سہارا لیا گیا۔ یہ شہر اتنا بڑا ہے کہ اندرونی طور پر مکمل دیکھنے کے لیے قریب دس دن کا وقت درکار ہے۔ یہ تھی اس عجوبہ کہلائے جانے والے شہر کی دلچسپ تاریخ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں